ہم نے پھول مانگے تو خار ملے ہیں
جیت کر بھی ہمیں ہار ملے ہیں
اپنے دوستوں کے بارے کیا کہوں
ہمالیہ سے اونچے انہیں کردار ملے ہیں
جن کی راہوں میں ہم پھول بچھاتے رہے
ان لوگوں سے ہمیں آزار ملے ہیں
سبھی ایک جیسے مفاد پرست نہیں ہوتے
کچھ ہماری خاطر مر مٹنے کو تیار ملے ہیں
میں بڑا خوش نصیب ہوں اے پیارے دوستوں
اصغر کو جو تم جیسے باوفا یار ملے ہیں