(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
دنیا میں لوگ کرتے ہیں دولت سے پیار کیوں
ہر جانِ بے قرار ہے اس پر نثار کیوں
سیماب وار رکھتی ہے دولت سدا اسے
حرص و ہوس کے دام میں ہے لے لیا جسے
زر اس جہاں میں قاضیٗ حاجات بن گیا
عالم تمام جشنِ خرابات بن گیا
غم خانہٗ جہاں میں جو اس کی ضیاء نہ ہو
ہر تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو
جھکنا ترے حضور میں سب کی نماز ہے
تیری کھنک سے آج دلوں میں گداز ہے
ھل من مزید ایک جو رسمِ قدیم ہے
جیسے کسی چمن میں پریشاں شمیم ہے
آرام آدمی کو ہے تیری کھنک سدا
ہر دل کا چین بن گئی تیری چمک سدا
کتنا عجیب ہے یہ تماشائے سیم و زر
ہر شخص ہے اسیرِ تمنائے سیم و زر