دَم لبوں کے کناروں میں ہے
جاں بس اب اشاروں میں ہے
صاحبِ قرآں مجھ کو قرآں سنا
کہ تسکین اب نہ نظاروں میں ہے
چھوٹ رہا ہے ایک ایک کرکے سبھی
عمل سہارا تو ہی سہاروں میں ہے
وقتِ رخصت گر ایماں نہ بچ سکا
یہ خصارہ بڑا سب خصاروں میں ہے
پڑا رہیگا اندھیری قبر میں اکیلا
گو آج لاکھوں میں ہے ہزاروں میں ہے
جو اچانک گیا جانے کیا لے گیا
کر ادا شکر کہ تو بیماروں میں ہے
اے نادان تو ابھی غفلت میں ہے
اور گماں ہے تجھے کہ بیداروں میں ہے
اخلاق فکرِ عالم میں خود کو نہ بھول
تو بھی تو آخر گنہگاروں میں ہے