قسم کھاؤ نا
تھام کر ہاتھ دل کی نبض پہ
سما عت دھر کے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
فرط محبت سے بالا
تبسم و مزاح سے پہلے
جھٹک کے ماضی کو
پھٹک کر حال کو
سٹک کر فردا کے ہر خیال کو
محبت کے شبستانوں سے نظر چرا کے
چاہتوں کے دیس سے دامن چھڑا کے
قسم کھاؤ نا
کیا !!! تم سچ میں
چا ہتے ہو کہ ..... میں مر جاؤں
دیکھو
اب سب سچ کہنا ہے
قسم سے........ سچ کہتی ہوں
اس بار مجھے "دفعتا َ َ" مر بھی جانا ہے