دھوتا ہوں جب میں پینے کو‘ اس سیم تن کے پانو
رکھتا ہے‘ ضد سے‘ کھینچ کے باہر لگن کے پانو
دی سادگی سے جان‘ پڑوں کوہکن کے پانو
ہیہات! کیوں نہ ٹوٹ گئے‘ پیر زن کے پانو
بھاگے تھے ہم بہت‘ سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر‘ دابتے ہیں‘ راہزن کے پانو
مرہم کی جستجو میں‘ پھرا ہوں جو دُور دُور
تن سے سَوا فگار ہیں‘ خستہ تن کے پانو
اللہ رے ذوقِ دشت نوردی! کہ بعدِ مرگ
ہلتے ہیں خود بخود میرے‘ اندر کفن کے‘ پانو
ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ‘ ہر طرف
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں‘ مرغِ چمن کے پانو
شب کو‘ کسی کے خواب میں آیا نہ ہو‘ کہیں!
دکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پانو
غالب! میرے کلام میں کیوں کر مزا نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پانو