دھیرے دھیرے یوں شرارت کرکے آنا یاد ہے
اپنے ابّا سے ہمیں پھر مار کھانا یاد ہے
مار کھانا روز ہی ، اپنا یہی معمول تھا
اتفاقاً ہم کو اب تک وہ زمانہ یاد ہے
’’دوپہر کی دھوپ میں میرے ُبلانے کے لیے‘‘
بھائی کا ہر روز گھر سے باہر آنا یاد ہے
بدتمیزی اور شرارت خود ہی کرنا، بعدازاں
پکڑے جانا اور پھر آنسو بہانا یاد ہے
پیٹنے کے بعد ابّا تو نکل جاتے کہیں
وہ مِرا رو رو کے امّا ں کو رُلانا یاد ہے
گھر میں گھس جاتے تو پھر باہر نکلتے ہی نہ تھے
مار کھا کر دوستوں سے منہ چھُپانا یاد ہے
باوجودِ نقلِ حسرت اس غزل میں اے خلیلؔ
اپنے پٹنے کا بتنگڑ بھی بنانا یاد ہے
(حسرت موہانی سے معذرت کے ساتھ)