دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر منزل تقوی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا
کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا
مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ
ناتوانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا
نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار
صفحۂ آئنہ جولاں گہ طوطی نہ ہوا
وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوے
مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا