تیرے در سے آئے ہوئے دیر ہو گئے
ناز تیرے اٹھائے ہوئے دیر ہو گئی
اے منصفو اب جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہے
سچ کو چھپائے ہوئے دیر ہو گئی
ستم سہتا ہوں اپنوں کے، غیروں کے
قفل زباں کو لگائے ہوئے دیر ہو گئی
محل سے متصل کچے مکاں کے مکیں کو
کچھ پئے کچھ کھائے ہوئے دیر ہو گئی
فرصت ملے تو دیکھو پسے ہوئے انسانوں کو
خوشی جن کو منائے ہوئے دیر ہو گئی