عجب ہی دیس میرے کی کہانی ہے
یہاں سستا ہے خوں پرمہنگا پانی ہے
کھلے ہیں پھول کاغذ پر یہاں ہر سو
چمن کے گل خزاں کی اک نشانی ہے
فخر سے چلتا دولت مند یہاں پر ہے
یہاں افلاس کیوں صفتِ نا دانی ہے
ہے سچ معیوب ہر سو تم ذرا دیکھو
وطن میں جھوٹ کی ہی حکمرانی ہے
اُگلتا زر ہے آنگن میرے ہی گھر کا
برہنہ پھر یہاں کی کیوں جوانی ہے