لکھا جو شعرِ عقیدت محبتوں کے ساتھ
برس برس اٹھی رحمت محبتوں کے ساتھ
صریرِ خامہ نواے سروش بن جائے
کہ جب رقَم کرے مدحت محبتوں کے ساتھ
بنے گا ذریعۂ بخشش یہ فکر و فن میرا
کریں گے آقا شفاعت محبتوں کے ساتھ
جہاں میں امن کی بادِ بہار چلنے لگیں
بنیں جو عاملِ سیرت محبتوں کے ساتھ
مکاں سے لامکاں ان کی رسائی کیا کہنا
عطا کی رب نے یہ رفعت محبتوں کے ساتھ
حرا کے چاند کی نوری کرن سے عالم میں
شکست کھا گئی ظلمت محبتوں کے ساتھ
ترے قلم کو مُشاہدؔ مَیں چوم لوں بڑھ کر
کہ لکھ رہا وہ مدحت محبتوں کے ساتھ