مسند نشینِ جبر کا تیور عجیب ہے
ابکے مرے وطن کا مقدر عجیب ہے
ڈھانپا ہے خلقِ شہر نے ننگے وجود کو
پھر بھی سرک رہی ہے یہ چادر عجیب ہے
راہوں میں بہہ رہا ہے لہو مشتِ خاک کا
یہ معرکہ ء برشِ خنجر عجیب ہے
اپنی زمیں کو چھوڑ کے اوروں کو دے ضیاء
یہ تیرے التفات کا گوہر عجیب ہے
لے جا رہا ہے سب کو تباہی کے موڑ پر
راہِ سفر میں قوم کا رہ بر عجیب ہے
اب اے نثار شہرِ تمنا کو چھوڑ دو
ہر سو ہیں سر بریدہ یہ منظر عجیب ہے