راہِ وفا میں خود کو مٹاتے چلے گئے
پروانوں کے بھی ہوش اڑاتے چلے گئے
ارمان بھی تو اپنے ہی بس خون ہوگئے
اشکوں کے دریا یوں ہی بہاتے چلے گئے
پوچھا کبھی تو حال کسی نے جناب کا
بس حسرتوں کے داغ دکھاتے چلے گئے
جو اہلِ حق بھی تھے وہ تو کمیاب ہوگئے
اہلِ ستم ہی تب تو ستاتے چلے گئے
جمتے رہے ہیں حق پہ نہ مرعوب ہی ہوئے
ناحق سِتم سے سب کو بچاتے چلے گئے
کوئی ملے کبھی نہ جہالت میں شاد و مست
بس شمعٍ علم کی ہی جلاتے چلے گئے
منزل بھی اٌن کے قدموں میں گرتی چلی گئی
عزمِ سفر جو اپنا بڑھاتے چلے گئے
ان کا کرم نہ ہو تو کوئی بچ بھی نہ سکے
ساحل پہ بھی وہ کشتی ڈباتے چلے گئے
کوئی بھی تشنہ لب ہی کبھی اثر سے ملا
بس تشنگی بھی اٌس کی بجھاتے چلے گئے