رب کے حضور کوئی بھی گریہ نہیں گیا
جب تک درود آپ پر بھیجا نہیِں گیا
حق نے نقاب اٹھایا تھا لیکن بس ایک پل
موسی سے جلوہ نور کا دیکھا نہیں گیا
اس سال تو نواز مجھے التفات سے
میرا گذشتہ سال بھی اچھا نہیں گیا
رشتوں میں ناپ تول کے جانچا گیا اسے
عورت بھی ایک فرد ہے سمجھا نہیں گیا
ہم نے جسے ذرا سی توجہ ملاکے دی
ہونٹوں سے اسکے چائے کا چسکا نہیں گیا
اک بار اس نے یونہی جدائ کی بات کی
اس دل سے ساری عمر یہ دھڑکا نہیں گیا
تجھ پہ ضرور سایہ کسی کی دعا کا ہے
تو سچ بھی بولتا ہے پہ مارا نہیں گیا
جانا پڑا سبھی کو وجود اپنا چھوڑ کر
اس زندگی سے کوئی بھی زندہ نہیں گیا
تم نے کیا اسیر زمانے کو کس طرح
ہم سے تو ایک شخص بھی باندھا نہیں گیا
آئے تھے جس سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں اس کے سامنے بیٹھا نہیں گیا