ہوے دوست وہ جن کے ہم انہیں رقیب جاں کتے ہیں
زہے نصیب وہ انہیں یوں حبیب جاں کہتے ہیں
من جلوں کی محفل میں نظر آی نہ ہمیں کہیں
کوی ایسی صورت جسے وہ خوب رو کہتے ہیں
یوں تو یقیں ہے ہمیں ہم بھی کسی سے کم نہیں
مگر شومئ قسمت وہ اسے نظر فریب کہتے ہیں
مدت سےرہے ہم یونہی منتظراور رہےوہ نا آشنا
کیا ا یسے بھی یوں محبوب جاں رہتے ہیں ؟
بڑے نصیب والے ہیں یہ اپنےرقیب جاں بھی
رفیق اپنے ہر دم ان سے قریب رہتے ہیں
مت پوچھیۓ کیا گزرتی ہے جاں پر اپنی
جب مورکھ کو ادا سے وہ جانِ جاں کہتے ہیں
میرے حال زار پر نہ جایۓ گو دیوانگی سہی
ایسےجامہ زیب سےبہتر ہم جامہ زیرتورہتےہیں
ویسے ہیں اپنے بھی ایسے خیر خواہ
جو ہم کو ہی رفیقِ جاں کہتے ہیں