رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے
صبح بہ صبح رنج ہے شام بہ شام رنج ہے
اس کی شمیم زلف کا کیسے ہو شکریہ ادا
جب کہ شمیم رنج ہے جب کہ مشام رنج ہے
صید تو کیا کہ صید کار خود بھی نہیں یہ جانتا
دانہ بھی رنج ہے یہاں یعنی کہ دام رنج ہے
معنئ جاودان جاں کچھ بھی نہیں مگر زیاں
سارے کلیم ہیں زبوں سارا کلام رنج ہے
بابا الف مری نمود رنج ہے آپ کے بقول
کیا مرا نام بھی ہے رنج ہاں ترا نام رنج ہے
کاسہ گداگری کا ہے ناف پیالہ یار کا
بھوک ہے وہ بدن تمام وصل تمام رنج ہے
جیت کے کوئی آئے تب ہار کے کوئی آئے تب
جوہر تیغ شرم ہے اور نیام رنج ہے
دل نے پڑھا سبق تمام بود تو ہے قلق تمام
ہاں مرا نام رنج ہے ہاں ترا نام رنج ہے
پیک قضا ہے دم بہ دم جونؔ قدم قدم شمار
لغزش گام رنج ہے حسن خرام رنج ہے
بابا الف نے شب کہا نشہ بہ نشہ کر گلے
جرعہ بہ جرعہ رنج ہے جام بہ جام رنج ہے
آن پہ ہو مدار کیا بود کے روزگار کا
دم ہمہ دم ہے دوں یہ دم وہم دوام رنج ہے
رزم ہے خون کا حذر کوئی بہائے یا بہے
رستم و زال ہیں ملال یعنی کہ سام رنج ہے