رونق بزم ہےبس رقص شرر ہونے تک
عمر لگ جاتی ہے قطرے کو گہرہونےتک
جانےکس کو ہے طلب تیرے رخ روشن کی
آج سورج بھی نہیں ڈوبا گذر ہونے تک
آ خری شب میں بجھی جارہی لو کے ہمراہ
کون رکتا ہے ترا حسن نظر ہونے تک
انکو بتلائیں کیا ہم رات کا عالم اپنی
کیسے انگاروں پہ کٹتی ہے سحر ہونے تک
اس تعلق پہ مری جان بگڑتے کیوں ہو
ہم ترے ساتھ ہیں بس ختم سفر ہونےتک
مرے اشکوں کا یہ پیمانہ چھلک جائے نہ
وقت لگتا ہے کہاں ندیاں بحر ہونے تک
ہنس کے ہر ایک ستم ہم نے سہا ہے تیرا
خواب ہو جائیں گے ہم تم پہ اثر ہونے تک
ہم نے سوچا تھا پھولون مین غزل رہنا ہے
زندگی سیج ہے کانٹوں کی بسر ہونے تک\