رکھے ہیں اپنے سب ورق کھلی کتاب کی طرح
تمہیں ہیں سب اجازتیں پڑھو نصاب کی طرح
تمام اختتامیے ہمارے نام ہی سہی
وگر نہ سب عبارتیں ہیں انتساب کی طرح
گزررہی ہے زندگی نہ پوچھیئے کدھر کہاں
بھٹک رہی ہو جیسے شام کوئ خواب کی طرح
بنارکھا ہے دل کے گرد خواہشوں نے دائرہ
دکھائ دے رہی ہوں میں کسی نقاب کی طرح
خدا وہ دن دکھابھی دےمجھے ترے وصال میں
کھلوں میں پور پور تک کسی گلاب کی طرح
خوشی کے گیت سننے والے خواب ہوچکے حیا
بجارہے ہیں ساز ہم مگر رباب کی طرح