رہا جو نادم خطا پہ اپنی قریب رحمت کو پالیا
جو ہو ہی کتنا بڑا بھی پاپی غضب سے دامن چھڑا لیا
کبھی تو شیطان سے بچاؤ کبھی تو اپنے ہی نفس سے
اِنہیں سے تو کشمکش ہے اپنی اِنہیں کو دشمن بنا لیا
رہے نہ مایوسی زندگی میں اُسی سے بچنا ضروری ہے
جری تو وہ ہے کہ خود کو احساسِ کمتری سے بچالیا
جو اپنے اسلاف کو نہ بھولیں جہاں میں وہ سرخرو رہیں
چلا جو اُن کے نمونے پر تو قدم ہی اپنا جما لیا
چمن کی زینت بڑھے گی اٌس سے کہ کوئی نہ امتیاز ہو
ملا جو کانٹا بھی اثر کو تو گلے اٌسے بھی لگا لیا