ریوڑھی اندھا اپنوں کو بانٹے یہاں
غیر مانگے تو پھر اسکو ڈانٹے یہاں
نا اہل بھرتی ہوکر شہنشاہ بنے
اہل جتنے تھے سب آکے چھانٹے یہاں
اونچے قد والے دار و رسن تک گئے
سازشوں سے پلٹ آئے ناٹے یہاں
بن کے معصوم جلاد پھر آگئے
کل انہوں نے گلے سب کے کاٹے یہاں
معافیاں مانگ کر گڑ گڑاتا ہے جو
اپنا تھوکا ہوا خود ہے چاٹے یہاں
کل یہ فرعون تھا آج روتا ہے جو
دل کرئے منہ پہ دوں اسکے چانٹے یہاں
دونوں ہاتھوں سے لوٹا میرے ملک کو
ہم کو دکھلائے نقصان و گھاٹے یہاں
پھول پر اپنا قبضہ جمانے کے بعد
دے گئے تھے اشہر ہم کو کانٹے یہاں