زخم ا تنے سنبھا لتے کیوں ہیں
درد لفظوں میں ڈھالتے کیوں ہیں
ہجر کا غم ا چھا لتے کیوں ہیں
ذکرسب میں نکالتے کیوں ہیں
بات نکلے جو بے و فا ئی کی
لوٹ کر مجھ پہ ڈالتے کیوں ہیں
ہم نے د یو ا نگی سے توبہ کی
اب وہ صحرا کھنگالتے کیوں ہیں
پوچھتی ہوں جو بے رخی کا سبب
وہ بہانوں سے ٹالتے کیوں ہیں
ڈسنا عادت ہے جن عناصرکی
آستینو ں میں پا لتے کیوں ہیں
دامن حسن دیکھتے ہی غزل
لوگ کیچڑ اچھالتے کیوں ہیں