زخم بھی باخدا نہیں موجود
ایک بھی التجا نہیں موجود
کوئ شکوہ گلہ کریں کیسے
جب کوئ آسرا نہیں موجود
ہم ترستے ہیں روشنی کویوں
جیسے کوئ دیا نہیں موجود
کس کو خیرات بانٹنے آ ئے
روز ہوتا نہیں گدا موجود
ان کا دیدار ہی شفا میری
مرض ہے تو دوا نہیںموجود
کیوںسناتے ہیںوہ سزاہم کو
جب کہ کوئ خطا نہیں موجود
لوٹ کے تیرے پاس آجائیں
کیا کوئ راستہ نہیں موجود
ہم نے سہنا ہے اب کے ہجر ترا
وصل کا سلسلہ نہیں موجود
یوں تو موجودہیں غزل سب ہی
ا یک وہ بے و فا نہیں موجود