زخم کھلتے ہیں اک کرب سا سہنے میں مزا آتا ہے
یوں تڑپتے سسکتے ہوئے جینے میں مزا آ تا ہے
راس آتے نہیں اب مجھ کو مخملیں بستر
کا نٹو ں کی سیج برتنے میں مزا آتا ہے
آس کے غنچےکبھی کھلتےہیں کبھی مرجھاتےہیں
اب بہاروںمیںبھی پت جھڑ دیکھنےمیںمزا آتاہے
جب بھی چلتی ہے خیالوں میں یاد کی خنک ہوا
ہر مہینہ د سمبر سا گزرنے میں مزا آتا ہے
جب برستیں ہیں ساتھ بوندوں کے ترستی آنکھیں
تب کہیں جاکے ساون کے بھیگنے میں مزا اتا ہے
سہتا ہے دل جب روٹھنے والے ہمزاد کے دکھ
شب تنہائ چھپ کے رونے میں مزا آتا ہے
بارہا خود سمیٹ کر بکھرادینا بے خیالی میں
یوں پریشاں زلفوں سے کھیلنے میں مزا آتاہے
خوابوں کی تال پر بجتی ہے اکثر عشق کی جھانجر
نام لکھ لکھ کے بار بار مٹانے میں مزا آتا ہے
درد کی جھانجھر پہ رقص کی تہزیب کے ساتھ
آپ ہی آپ پھر تھر کنے میں مزا آتا ہے
کبھی سوکھے ہوئےشجر کو سمجھ کے شانہ
بے سبب یوں ہی لپٹنے میں مزا آتا ہے