زر ہمارا زمیں ہماری ہے
پھر بھی ان کی اجارہ داری ہے
دور جمہوریت ترے قرباں
کل جو حاکم تھا اب بھکاری ہے
اب گلوں کا کوئی مقام نہیں
صرف کانٹوں کی آبیاری ہے
آج بھی آفتاب مشرق پر
دیکھو مغرب کا خوف طاری ہے
جیسا چاہے ہمیں تماشہ دکھا
تو ہی بندر تو ہی مداری ہے
منہ نہ کھولو بنے رہو سب کے
بس اسی میں تو ہوشیاری ہے
یہ بھی روٹھے ہیں وہ بھی اکھڑے ہوئے
دیکھیں اب کون کس پہ بھاری ہے
کم نہیں کوئی بھی کسی سے حسن
یہ بچارا نہ وہ بچاری ہے