زندگی اب تو مری غم کی نظر ہوتی ہے
بھیگی پلکوں کے تلے رات بسر ہوتی ہے
پھو ٹتی کرنیں مرا آ پ جلا دیتی ہیں
پوچھیئے نہ کہ مری کیسی سحر ہوتی ہے
مرے کانوں میں نہیں گونجتی سرگوشی وہ
سن کے جو سانس مری زیر و زبر ہوتی ہے
بڑی بے چین سی ہوکر میں پلٹ جاتی ہوں
کوئ آہٹ ،کوئ دستک بھی اگر ہوتی ہے
آخری لمحے ملاقات کے کچھ تو کہتے
وقت رخصت بھی کیا تمہید سفر ہوتی ہے
ضبط ممکن تھا جو پتھر کے بنے ہوتے ہم
لاکھ روکوں میں اشک ٹیس مگر ہوتی ہے
ضدی بچے کی طرح دل یہ مچلتا ہے غزل
کوئ تشفی نہ ادھر اور نہ ادھر ہوتی ہے