زندگی کاوش باطل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
تو ہی اک عمر کا حاصل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
لوگ ملتے ہیں سر راہ گزر جاتے ہیں
تو ہی اک ہم سفر دل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
تو نے سوچا ہے مجھے تو نے سنوارا ہے مجھے
تو مرا ذہن مرا دل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
تو نہ ہوگا تو کہاں جا کے جلوں گا شب بھر
تجھ سے ہی گرمئ محفل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
میں کہ بپھرے ہوئے طوفاں میں ہوں لہروں لہروں
تو کہ آسودۂ ساحل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
اس رفاقت کو سپر اپنی بنا لیں جی لیں
شہر کا شہر ہی قاتل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
ایک میں نے ہی اگائے نہیں خوابوں کے گلاب
تو بھی اس جرم میں شامل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
اب کسی راہ پہ جلتے نہیں چاہت کے چراغ
تو مری آخری منزل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ