زندگی گناہ دلدل رقص زمانہ آ گیا
در توبہ جو کھلا مقام آشیانہ آ گیا
خوف سزا سے گر نہ مائل بہ کرم ہو
لذت جزا ہی سے خواب سہانہ آ گیا
ایک اکیلا راستہ انجان تو آباد گنجان
روح فقیری میں مزاج شاہانہ آ گیا
ترغیب ثروت میں عشرت ہوتی بیتاب
بچ گیا جب اٹھا شور دیکھو دیوانہ آ گیا
نفس مجہول سے زخم خوردہ قوم
محکومی نہ رہی جب انقلاب ترانہ آ گیا
شریک وصل امتنان ہیں باہم رحجان
مفارقت عدم میں رہنے کو بیگانہ آ گیا
قلب اشتیاق جنوں میں جو نغمہ سرا ہوا
زبان پہ میرے کلام عارفانہ آ گیا
ہر روپ الگ روپ میں رنگ جدا
آفتاب و مہتاب میں بھی موازانہ آ گیا
سب کو تو غائب ہے خود میں حضور
علم الف سے ہی حال میں رندانہ آ گیا
شکوہ کو نہیں ملتی تحسین پزیرائی
آنکھوں کو درد میں بھی مُسَخرانَہ آ گیا
وصف عشق میں رنگ ایک تو روپ جدا
ایک ہے آستانہ تو ایک کا افسانہ آ گیا