زُلْفِ شَب گُوں کا نشہ رِنْد کو بھولا کب تھا
نام لے لے کہ پکاریں تو یہ اچھا کب تھا
تُم ہمیں چاہو گے یہ بھی بھلا سوچا کب تھا
اور پھر تم کو بھی چاہیں یہ ارادہ کب تھا
رشکِ مقتل ! میں اس اِحْساس سے مر جاتا ہوں
تو نے دیکھا تھا فقط جان سے مارا کب تھا
طُورسے اٹھتا تو بھنبھور چلا آتا وہ
سرمیں موسیٰ کے ترے پیار کا سَودا کب تھا
تُم جب آتے ہو نئی بزم سجا لیتے ہو
میرا مرنا تو عبادت تھی تماشہ کب تھا