Add Poetry

زہرِ اختلاف

Poet: ڈاکٹر شاکرہ نندنی By: ڈاکٹر شاکرہ نندنی, Porto

یہ کیسا زہر ہے
جو لفظوں میں گھلتا ہے
خامشی کو چیخ میں
اور چیخ کو خامشی میں بدل دیتا ہے

یہ اختلاف نہیں
یہ فاصلہ ہے
سوچ اور سمجھ کے بیچ
خون اور رشتے کے بیچ
"ہم" اور "وہ" کے بیچ

کہاں کھو گئی وہ آواز
جو کہتی تھی
اختلاف، اختلاف ہے
دشمنی نہیں

ایک بچہ جب سیکھتا ہے
کہ اس کی نسل بہتر ہے
اس کی زبان برتر ہے
اس کا مسلک پاک تر ہے
تو ہم ایک اور جنگ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔

نفرت کی آگ
کبھی مکتب سے نکلتی ہے
کبھی مسجد سے
کبھی مندر، کبھی چرچ
کبھی ایک اسکرین پر
کبھی کتاب کے صفحے سے

اور ہم سب جلتے رہتے ہیں
راکھ ہوتے رہتے ہیں
اپنے ہی لفظوں
اپنے ہی تعصبات میں

کیا کوئی لمحہ آئے گا
جہاں ہم صرف
انسان کہلائیں گے
نہ کسی قوم، نہ کسی قبیلے
نہ کسی عقیدے کی زنجیر میں بندھے ہوئے

کیا کبھی ہم
دوسروں کی بات سنیں گے
بغیر ڈر کے
بغیر شرط کے

کیا کبھی ہم
دل کو زبان بننے دیں گے
اور زبان کو خاموشی؟

شاید
اگر ہم نے خود کو
دوسروں میں پہچانا
تو زہر بھی دوا بن سکتا ہے
اختلاف بھی حسن بن سکتا ہے
اور انسان
بس انسان بن سکتا ہے

Rate it:
Views: 3
20 Apr, 2025
More Religious Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets