زیست کے روز و شب اجالتا ہے
ایسے خالق مجھے سنبھالتا ہے
جب بھی گرداب میں ہو کشتی جاں
معجزوں سے اسے نکالتا ہے
سب کا رازق ہے وہ بلا تفریق
پتھروں میں حیات پالتا ہے
نار نمرود ہو یا صاحب فیل
ہر جگہ سچ کو وہ اچھالتا ہے
رب کی عظمت نہ مانے جو فرعون
اس کو کتنا بڑا مغالطہ ہے
جو تیری بارگاہ میں جھکتے ہیں
تو انھیں نار سے نکالتا ہے
تیرے مغضوب جو بھی بنتے ہیں
تو انھیں ابتلا میں ڈالتا ہے