سُسر پھولوں کے شیدائی انہیں مالی سمجھتا ہے
اور اپنی ساس کی نندوں کو بھی سالی سمجھتا ہے
یہ انگریزی کا مارا بول بھی ڈھنگ سے نہیں سکتا
مگر اردو میں کچھ کہہ دو اسے گالی سمجھتا ہے
یہ ناشکروں میں نا شُکرا ہمہ وقت لب پہ شکوہ ہے
مرادوں سے بھرے دامن کو بھی خالی سمجھتا ہے
پرائے دیس کی ہر شے پہ اسکا دم نکلتا ہے
اور اپنے دیس کا ہیرا بھی یہ جعلی سمجھتا ہے
جو چپٹی ناک والا کوئی بھی اس کو نظر آئے
وہ گلگت کا ہی کیوں نہ ہو یہ نیپالی سمجھتا ہے
ترقی کے جو منصوبے اگر زیر بحث لاؤں
وہ میرے سارے منصوبے محض خیالی سمجھتا ہے
صنف نازک خیالو ں پر ہمیشہ چھائی رہتی ہے
اگر پیالہ بھی دو اسِکو تو یہ پیالی سمجھتا ہے
اشہر کی شاعری گویا ہے دو کوڑی سے معمولی
اور اپنے آپ کو گویا کہ وہ حالی سمجھتا ہے