گل معنیء سخن کیلئے
خار چاہئیے
گلزار جیسا اک نہیں
ہزار چاہئیے
چلتا ہے دھڑکنوں پہ خرامِ قلم سے وہ
لکھتا ہے موسموں پہ
محبت کے حرفِ نو
اس جیسا دوسرا نہیں
اقرار چاہئیے
گلزار جیسا اک نہیں
ہزار چاہئیے
ملتی ہے جیسے
سب کو
سورج سے زندگی
اُس پار کے چراغ کی
اس پار روشنی
اس کائناتی پیار کا اظہار چاہئیے
گلزار جیسا اک نہیں
ہزار چاہئیے
شب اوڑھ لے تو
چاند کی کرنیں نثار ہوں
تیشہ اٹھائےدن کا
تو
نین آبشار ہوں
اس شاہِ شاعراں کا دیدار چاہئیے
گلزار جیسا اک نہیں
ہزار چاہئیے
بشریٰ حزیںؔ