سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمع نظر خیال کے انجم جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں تری محفل سے آئے ہیں
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
ہر اک قدم اجل تھا ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے ہیں
باد خزاں کا شکر کرو فیضؔ جس کے ہاتھ
نامے کسی بہار شمائل سے آئے ہیں