✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
سرور فرحان سرورؔ
Search
Add Poetry
Poetries by سرور فرحان سرورؔ
زیست میری بھی آسان بنا دے یارب
زیست میری بھی آسان بنا دے یارب
مجھ کو مدینے کا مہمان بنادے یارب
ان کے دربار سے اذن قدم بوسی ملے
قلب عاصی کو مسلمان بنادے یارب
تیرے دربار بھی آؤں میں جھکائے گردن
طوافِ کعبہ کا امکان بنادے یارب
کاسہء عمر ہے اعمال سے خالی مولا
مجھ کو اک اشک پشیمان بنادے یارب
جنتی لوگوں میں شمار میرا ناممکن
مجھ کو بس حاملِ قرآن بنادے یارب
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
چلو تم کو بھی بتلادیں
چلو تم کو بھی بتلا دیں
محبت ہم نہیں کرتے
کسی کا دم نہیں بھرتے
کسی کی یاد میں جل کر
یہ پلکیں نم نہیں کرتے
چلو تم کو بھی بتلا دیں
سبھی سے ہنس کے ملتے ہیں
سبھی کے ساتھ چلتے ہیں
مگر جب چاہ کی چاہ ہو
بہت محتاط چلتے ہیں
چلو تم کو بھی بتلا دیں
نئے یاروں کی سنگت میں
پرانے بھول جاتے ہیں
کوئی جو روٹھ جاتا ہے
منانا بھول جاتے ہیں
چلو تم کو بھی بتلا دیں
ہمارا ساتھ ہے جھوٹا
ہماری بات جھوٹی ہے
ہمارے لفظ میں شامل
ہر اک سوغات جھوٹی ہے
چلو تم کو بھی بتلا دیں
محبت، صرف دھوکہ ہے
سراب اک بے نشاں بیشک
مگر کس کو مفر اس سے
رہے خواہ بدگماں بیشک
چلو تم کو بھی بتلا دیں
یہاں ہر چیز جزوقتی
یہاں ہر چیز فانی ہے
فقط چند یوم کی الفت
کہ فانی زندگانی ہے
چلو تم کو بھی بتلا دیں
کوئی معشوق نہ عاشق
سب اپنی ذات میں گم ہیں
محبت اور نفرت سب
فقط توہمات میں گم ہیں
چلو تم کو بھی بتلا دیں
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
میں نہیں بتاؤں گا
زیست میں جو سیکھا ہے اب نہیں بھلاؤں گا
مسکرا کے جیئوں گا، اشک کب بہاؤں گا؟
تجربات کو اپنے، جگ سے میں چھپاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
کون سا ہے فیشن in, مجھ کو علم ہے سب کا
رات ہے یا جگ میں دن، مجھ کو علم ہے سب کا
پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے، کیا انہیں سکھاؤں گا؟
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
کس کا کس سے پھڈا ہے؟ کون ہے کس چکر میں؟
کون کس سے دبتا ہے؟ کون ہے کس ٹکر میں؟
لوگ سوچتے ہیں یہ 'پردہ کب اٹھاؤں گا؟'
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
روس ہو یا امریکہ، چین یا افریقہ ہو
باخبر ہوں رسموں سے منگنی یا عقیقہ ہو
میں خبر کی مسند پہ گل نئے کھلاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
پیٹھ میں ہے کھجلی کیوں؟ معدے میں کیوں اینٹھن ہے؟
کس بناء پہ سر درد ہے؟ کیوں بھلا انفیکشن ہے؟
اطباء کے مطب کو تالے میں لگواؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
شہر بھر میں کچرا ہے، صفائی کا ہے کیوں فقدان؟
کون ہے فرشتہ اور کون اندر سے شیطان؟
نوٹ کے بدلے میں اب ووٹ میں بھگتاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
کھول کر نیا چینل، جہالتیں پھیلاؤں گا
روز و شب فقط اپنی بانسری بجاؤں گا
اپنی اہمیت سرور ہر جگہ جتاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
جب سے کرونا نے طوفان مچا رکھا ہے
جب سے کرونا نے طوفان مچا رکھا ہے
موت کے خوف نے بس گھر میں بٹھا رکھا ہے
کس طرح جان سکیں گے ہم کسی کا باطن؟
نقاب ہر شخص نے چہرے پہ سجا رکھا ہے
فیس بک، واٹس ایپ، ٹک ٹاک ہو یا انسٹا ہو
سب نے کورونا کو سینے سے لگا رکھا ہے
گھر سے باہر نہیں جاؤ کہ بہت خطرہ ہے
جیسے کورونا نے کوئی جال بچھا رکھا ہے
اب نہ وہ دوستوں کی بزم ہے، نہ کرکٹ ہے
'چیل اڑی، چڑیا اڑی' نے دل بہلا رکھا ہے
وہ جو کہ رات گئے گھر کی خبر لیتے تھے
ان دلیروں نے بھی باہر کو بھلا رکھا ہے
جن کے درشن سے عشاق جیا کرتے تھے
ان حسینوں نے بھی چہروں کو چھپا رکھا ہے
کل کسی کو بھی خبر کب تھی کسی اپنے کی؟
آج بس فون نے ان سب سے ملا رکھا ہے
سبزیاں کاٹ لوں؟ یا گھر کا کوئی کام کروں؟
لیکن گھر والوں نے کاہل ہی بنا رکھا ہے
گفتگو کس سے ہو؟ کون سنے گا سرور؟
تونے ہر شخص کو ہر لحظہ خفا رکھا ہے
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
مصنوعی کلی
حُسن با پردہ ہے مرغُوب ہمیں
اوٹ آنچل کی چہرے پہ بھلی لگتی ہے
جس کا جلوہ ہو ہر ایک کی آنکھوں پہ عیاں
عورت ایسی ہمیں مصنوعی کلی لگتی ہے
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
سیلفیاں
ٹیڑھے میڑھے منہ بنا کر کھینچتے ہو سیلفیاں
سوچتا ہوں سیلفیاں کچھ اصل میں ہیں سفلیاں
ہونٹ باہم بھینچ کر شکل بنائی یوں جناب
جیسے سوکھی ڈال پہ کیڑے لگی ہوں گٹھلیاں
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
جانے کب تک میری غربت کی یہ دیوار گرے
سر پہ دُشنام کی، ہر لحظہ جب تلوار گرے
کیوں نہ عاشق پھر تیرا بر سرِ بازار گرے؟
عشق کی راہ یہ دیوانوں کو خوش آتی ہے
ورنہ ہر گام پہ کتنے یہاں ہُشیار گرے
اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے کی خواہش ہے شدید
گو کہ حالات کے ہاتھوں ہم کئی بار گرے
مُفلسی نے ہمیں اس طرح کیا ہے رُسوا
جنسِ بازار کی جیسے کبھی دستار گرے
ساتھ دینا ہی گوارہ نہ تھا جن لوگوں کو
جنگ کے دوران بہانے سے وہ سالار گرے
سہمے رہتے ہین ہر فرعون کے آگے ایسے
جیسے سجدے میں کوئی عاصی، گناہگار گرے
قلب مضطر ہے کسی دید کی خاطر ورنہ
ہم سا خود سر بھلا کیونکر سوئے دربار گرے؟
چشمِ پُر نم سے اِک اشک نہ چھلکا ہے کبھی
گرچہ اِس قلب پہ آنسو ہیں لگاتار گرے
اسی اُمید پہ محنت کا چلن رکھتا ہوں
جانے کب تک میری غربت کی یہ دیوار گرے
اپنے اجداد کی میراث ہے بیباک زباں
گو کہ سرور سے زمانے میں کئی بار گرے
سرور فرحان سرورؔ
Copy
تب ہی سرور کہہ سکیں گے “ہاں یہ نیا سال ہے“
کل جو اپنا حال تھا، وہی تو اپنا حال ہے
ہم جیسوں کے لئے کیا خاک نیا سال ہے
جیب جس کی گرم ہے، اُس کی ہی ہستی نرم ہے
بخت اُس کے سخت ہیں، جو جیب سے کنگال ہے
جوہرِ قابل وہی، جس کی ہے پرچی بڑی
جُوتیوں میں بٹ رہی، اِس مُلک میں اب دال ہے
مسلک و فرقہ پرستی، اب حقیقت میں ہیں دیں
وحدتِ مسلم ہی یارو، مُسلماں میں خال ہے
قومیت کے بُتکدے میں، زَبان کے ہیں بُت سجے
ہر پُجاری اپنے مندر میں بڑا دجال ہے
خون ریزی، بم دھماکے، قتل و غارتگری
ارضِ پاکستان میں شیطان کا دھمال ہے
ہیں مسیحا خودغرض، ارباب سب غفلت میں ہیں
اہلِ دانش کی خرد بھی جان کا جنجال ہے
سب کے اپنے ہیں مُجاہد، سب کے اپنے ہیں شہید
قوم ہے اب مُنتشر، یک جہتی کا کال ہے
خوبیء تقدیر سے ہم کو ملا ہے وہ وطن
ماضی جس کا پُر شکوہ، تابندہ جس کا حال ہے
جس کا اک اک فرد ہے خورشید کی مانند ضیاء
اپنی ملت، جوہرِ محنت سے مالا مال ہے
ہے ضرورت کہ بدل ڈالیں ہم اپنی سوچ کو
محنتِ شاقہ میں مُضمر، قوم کا اقبال ہے
ہے جواں اُمید اب بھی، بہتری بھی آئے گی
اِک ذرا جُہدِ مسلسل کا ہی استعمال ہے
کاش کہ اِس ملک کی تقدیر بھی جائے سنور
تب ہی سرور کہہ سکیں گے “ہاں یہ نیا سال ہے“
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
بیگم سے خوف کھاتے ہیں سُلطان وغیرہ
اس میں نہیں ہے جھوٹ کا امکان وغیرہ
بیگم سے خوف کھاتے ہیں سُلطان وغیرہ
ہوجاتے ہیں فرار بچا کر سب اپنی جاں
غصے میں پھینکتی ہیں جب سامان وغیرہ
چھوٹی سی بات پر یہ اٹھاتی ہیں آسماں
شوہر کا ہو ہی جاتا ہے نقصان وغیرہ
شادی شدہ کو جھیلنا پڑتا ہے وائے حیف
ہنس ہنس کے گھر میں آندھی و طوفان وغیرہ
ہے عافیت ہی عافیت کنوار پن میں یار
دیتے نہیں کنوارے بلیدان وغیرہ
ہر ہر مخلوق کانپے ہے بیگم کے نام سے
جنات، بھوت، پریت اور شیطان وغیرہ
گھر کے بزرگ جوانوں کو دکھلا کے چند خواب
شادی میں پورے کرتے ہیں ارمان وغیرہ
گھونگھٹ دولہا اٹھاتا ہے جس دم میرے رفیق
ہوتی ہے عقل اسی دم قربان وغیرہ
تا عمر کوستا ہے پھر بیوٹی سیلون کو
جادو نے جن کے کیا تھا حیران وغیرہ
شادی کے بعد چار دن رہتی ہے بس خوشی
پھر وقت بھُلا دیتا ہے پیمان وغیرہ
بیگم تو گھر گرہستی میں بس ہو کے ہی مگن
چولہے میں جھونک دیتی ہے رُومان وغیرہ
ہر سال آتا رہتا ہے کیلنڈر اِک نیا
بڑھتا ہی چلا جاتا ہے خاندان وغیرہ
سرور نے خبردار کیا ہر جوان کو
شادی کا جس کسی کا ہے اِمکان وغیرہ
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
ہم نے چمپی کرا کے دیکھ لیا
اچھا شیمپو منگا کے دیکھ لیا
تیل عُمدہ لگا کے دیکھ لیا
ہم نے چمپی کرا کے دیکھ لیا
پستہ بادام کھا کے دیکھ لیا
بال روٹھے تو پھر نہیں لوٹے
ہم نے سب آزما کے دیکھ لیا
ٹنڈ کرائی کہ بال بڑھ جائیں
بال شاید پھر سر پہ چڑھ جائیں
ریچھ کا جھوٹا کھا کے دیکھ لیا
برگِ مہندی اور پیاز کا پانی
عَرَقِ لیموں، دھنیا میدانی
نسخہ ہر اک بنا کے دیکھ لیا
کچھ ہوا نہ جب اشک بہنے پہ
کھاد ڈالی کسی کے کہنے پہ
سر پہ ہل بھی چلا کے دیکھ لیا
ڈاکٹر، وید، حکیم، عطائی
کچھ نہ چھوڑے ہم نے اے بھائی
سب کو ٹکلا دکھا کے دیکھ لیا
گنج بڑھتا ہے روز و شب ایسے
بدلی سے چاند دکھائے چھب جیسے
وگ میں سر کو چھُپا کے دیکھ لیا
سرور فرحان سرور
Copy
عشق میں لب سے ہو اظہار، ضروری تو نہیں
یاوہ گوئی سے بڑھے پیار، ضروری تو نہیں
عشق میں لب سے ہو اظہار، ضروری تو نہیں
لفظ معقول ہوں تو خود ہی اثر رکھتے ہیں
بحث کرنی پڑے ہربار، ضروری تو نہیں
قلبِ معصوم، تمنّاؤں سے رنجُور ہوا
پھر کسی کا ہو طلبگار، ضروری تو نہیں
لبِ خاموش سے خَفگی بھی جھلک سکتی ہے
ہر خموشی بنے اقرار، ضروری تو نہیں
دھن، دولت سے بھلا کس کو ملی ہے چاہت؟
جنسِ نایاب اور خریدار، ضروری تو نہیں
قصرِ شاہی ہمیں سونے کا قفس لگتا ہے
خوشی دیں دَرہم و دِینار، ضروری تو نہیں
لہو جب آنکھ سے ٹپکا تو بنا تاج محل
سیِم و زر سے بنے شاہکار، ضروری تو نہیں
دِل نے اُس شوخ کی مُورت کو بسا رکھا ہے
دِل ہی بن جائے ساہُوکار، ضروری تو نہیں
ہم نے انسانوں سے اُلفت کا چلن اپنایا
ہم کو بدلے میں ملے پیار، ضروری تو نہیں
کر کے رحمت پہ بھروسہ یہ قدم اُٹھے ہیں
راہِ سرور رہے دُشوار، ضروری تو نہیں
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
زُلفِ جاناں کا جادو
زُلفِ جاناں کا جادو یوں سر پر چڑھا
سب کے مُکھ پہ ہنسی سے نکھار آگیا
اُس کی زُلفوں کو ہاتھوں میں تھاما ہی تھا
پھر تو جوؤں کا جیسے انبار آگیا
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
عشق کا فارمولا
حُسن کا فارمولا کس قدر سِمپَل نکلا
دل وہیں ڈُوب گیا، رُخ پہ جب ڈِمپَل نکلا
حُسن سے ہو گیا دل ایک ہی لمحے میں اُچاٹ
اُس کے ڈِمپَل کی جگہ جیسے ہی پِمپَل نکلا
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
مزدور کا یوم ویلنٹائن
ملی نہ فکرِ روزی سے ہمیں ذرا مہلت
سو عشق وشق کی ہم پالتے بھی کیا علّت
ضرورتوں نے ہمیں زندگی کی باندھا ہے
ہمارے واسطے بس حسرتوں کا کاندھا ہے
مُقدر کا ہے لکھا کریں فقط محنت
پھر بھی پائیں نہ ہرگز اِک ذرا راحت
صبح سے شام تک روٹی ہمیں نچاتی رہے
تمام عمر فقط روٹی یاد آتی رہے
اسی کی چاہ میں ہر روز نئی ذلّت کو سہیں
پھر بھی اشیائے لازم کی قلت کو سہیں
اپنی اولاد کو تعلیم سے محروم تکیں
سیاہ مُستقبل کے اندیشوں سے ہذیان بکیں
اپنے بیمار کو دوا بناء مرتا دیکھیں
اپنے خوابوں کو ہر لحظہ بکھرتا دیکھیں
بہرِ مزدور ہے یکساں ہر اِک روز اور شب
رقصِ بِسمل کے دیکھے سے ہے فُرصت ہی کب؟
تم کو اُلفت و محبت کی ادا خُوب رہی
میری ہستی میرے اپنوں سے ہی محجُوب رہی
مُجھ کو تہوارِ محبت نہیں بھاتا ہرگز
میری ہستی میں یہ خوشیاں نہیں لاتا ہرگز
میں جو چاہوں بھی تو یہ دِن مناسکتا نہیں
روٹی کے بدلے گھر پھول لیجا سکتا نہیں
گفٹ محبوب سے کیا تم کو ملے گا صاحب؟
فکر مجھ کو ہے میرے گھر کیا پکے گا صاحب؟
سرور فرحان سرور
Copy
کیوں کر تجدیدِ نِکاح کا نہیں امکاں، نانا؟
کیوں کر تجدیدِ نِکاح کا نہیں امکاں، نانا؟
کب تک نانی سے نِبھاؤ گے یوں پیماں، نانا؟
بچن، تم سے ہے بڑا، پھر بھی ہے ہیرو آتا
عمر میں اُس کی ہیں ہیروئینز ابھی بچیاں، نانا
کتنے بڈھوں کی ٹھَرَک دیکھ کے یاد آتا ہے
“ٹرائی“ کرنے میں ہے آخر کوئی نُقصاں، نانا؟
تم بھی کیا سادہ ہو، لوگوں کی سُن لیتے ہو
خِضاب کیا کر نہیں سکتا تمہیں جواں، نانا؟
مُوڈ بن جائے تو لکھنا اپنے نواسے کو
میری پہچان کی ہیں کئی اِک بُڈھیاں، نانا
آخری وقت میں ہوتی ہے ضرورت سب کو
کب تک بازار کی کھاؤ گے روٹیاں، نانا؟
دوسری شادی کوئی جُرم نہیں ہے ہرگز
کب تک اس دِل میں نہاں رکھو گے ارماں، نانا؟
سدا مغرب کی ہوس، کیونکر جواں رہتی ہے؟
کیوں ہے مشرق بھلا بے طرح پشیماں، نانا؟
تھام لو ہاتھ کسی بیوہ یا مطلقہ کا
تاکہ بس جائے تمہارا بھی آشیاں، نانا
پیرانہ سالی میں اولاد ہوئی بے پرواہ
کون بنتا ہے بھلا درد کا درماں، نانا
شعر کی آڑ میں سرور یہی سمجھاتا ہے
اب تو لے آؤ خدارا نانی اماں، نانا
(نوٹ :: ہم احمد فراز صاحب کو ہماری اس تخلیق کی (ہمارے تخیل میں آنے سے پیشتر ہی) پیروڈی لکھنے پہ معاف کرتے ہیں۔ قارئین بھی نوٹ فرما لیں)
Sarwar Farhan Sarwar
Copy
خبر جھوٹی ہو تو اخبار بدل جاتے ہیں
حرفِ انکار و اقرار بدل جاتے ہیں
دھن کی خاطر کئی پندار بدل جاتے ہیں
جنسِ مجبور تو بازار ہی میں رہتی ہے
ہاں فقط روز خریدار بدل جاتے ہیں
حُسنِ یوسُف اگر بے پردہ نظر آتا ہے
شربتِ دید سے بیمار بدل جاتے ہیں
ترکِ اُلفت کی قسم روز نئی کھاتے ہیں
دیکھ کر اُس کو، ہر اِک بار بدل جاتے ہیں
اہلِ منصب کے قصائد، بعد منصب ہے ہجو
آہ کس درجہ یاں اُفکار بدل جاتے ہیں
صرف اِک حال بدلنے سے بدلتا ہے جہاں
مُفلسی آنے سے سب یار بدل جاتے ہیں
وقت ہر ایک کو بے طرح بدل دیتا ہے
خوفِ طوفان سے پتوار بدل جاتے ہیں
مرگ کا خوف بدلتا نہیں دیوانوں کو
ورنہ سب لوگ سوئے دار بدل جاتے ہیں
فصل نفرت کی نہ گھر میں کبھی اُگنے دینا
کیونکہ اس فصل سے گھر بار بدل جاتے ہیں
قصہء کرب و بلا نے کیا واضح سب پر
ظلم بڑھتا ہے جب انصار بدل جاتے ہیں
سِیم و زر دے نہیں سکتے ہیں کسی کو خوشیاں
دولت ملتی ہے تو آزار بدل جاتے ہیں
تھا سمجھتا کہ میرے ساتھ ہیں ہمدرد بہت
جب نہ جانا تھا اداکار بدل جاتے ہیں
لفظ توقیر سے عاری نہ ہوں کیونکر سرور
خبر جھوٹی ہو تو اخبار بدل جاتے ہیں
سرور فرحان سرورؔ
Copy
مومن کے دل میں کیوں نہ ہو، الفت حسین کی؟
مومن کے دل میں کیوں نہ ہو، الفت حسین کی؟
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے نسبت حسین کی
اللہ کی رضا ہے محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی پیروی
سنت نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی دوستو، چاہت حسین کی
دشمن بھی جس کی اقتداء میں پڑھے نماز
واللہ ایسی دائم ہے امامت حُسین کی
حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید
والعصر کی آیات ہیں سیرت حُسین کی
لوگو کبھی نہ دیں سے بغاوت پہ چُپ رہو
کلمہء حق کو کہنا ہے سنت حُسین کی
ظالم کے سامنے نہ جبیں خم رہے کبھی
اس کے سوا کیا ہے شہادت حُسین کی
گھر بار جب بھی کوئی لُٹائے، براہِ حق
یاد آئے گی ہر اِک کو شجاعت حُسین کی
پیغام کربلا کا ہے کہ ظلم ہے فنا
جو تا ابد رہے گی وہ عظمت حُسین کی
سرورؔ انہی کے نقشِ قدم پہ قدم بڑھا
واللہ دیں و دنیا ہے حضرت حُسین کی
سرور فرحان سرورؔ
Copy
کنجوس کی عیدِ قُرباں
اِک مردِ کنجوس کی بیگم نے یہ کہا
“قربانی کے کرنے میں کیا امر مُحال ہے؟
وعدہ جو پار سال کیا تھا جناب نے
اُس وعدے کی وفا کو یہی دِن کمال ہے
بکرا ذبحہ کریں گے ہم یا دُنبہ یہ کہو؟
یا چھوٹی موٹی گائے کا دِل میں خیال ہے؟“
بولا وہ اپنی جیب کو ہاتھوں میں تھام کر
“مہنگائی کے ہاتھوں میرا جینا وبال ہے
کھانے کو ہم کو گوشت پڑوسی دے جائیں گے
ہمسائیگی کا کون سا یاں ایسا کال ہے؟“
بیگم یوں بولیں “گوشت ہی مقصد میرا نہیں
حق ہے اس میں غریب کا، حاصل جو مال ہے
اللہ کی رضا ہے کہ دیں ہم غریب کو
وسعت کے باوجود کیوں تم کو ملال ہے؟“
تنگ آ کے اس کنجوس نے بیگم سے یوں کہا
“فرمائیشوں سے بیوی کی بچنا مُحال ہے
ایسا کرو اس عید پر مجھ کو کرو ذبحہ
شوہر کے قتل کے لئے عُمدہ یہ سال ہے“
بیوی نے مُسکُرا کے کہا، “جانِ من سنو!
قُربان کرے تُم کو یہ کس کی مجال ہے؟
اسلام نے یوں شوہر کی قُربانی حرام کی
کہ گدھوں کی تو صرف کمائی حلال ہے“
تمام عالمِ اسلام کو خصوصاً ہماری ویب کے سبھی دوستوں کو عیدِ قُرباں کی دلی مُبارکباد۔
اللہ آپ سب کی قربانی اور ایثار کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین
سرور فرحان سرورؔ
Copy
گائے کی یاد میں ۔۔۔
اِک گائے ہم بھی لائے تھے کمیٹی ڈال کے
ستر ہزار کی تھی وہ، خرچہ نکال کے
سرو سا اُس کا قد تھا اور مست چال تھی
آنکھوں میں اُس کے ڈورے تھے، یارو کمال کے
من ڈولتا تھا، کئی من گوشت دیکھ کر
منہ سے ٹپکنے لگتے تھے، قطرے بھی رال کے
کھاتے کبھی تصور میں کباب و کوفتے
دعوت کے مزے لُوٹتے، گھوڑے خیال کے
سارا پڑوس رشک سے آتا تھا دیکھنے
بچے تمام رہتے تھے، بس گھیرا ڈال کے
دو دن کے بعد گائے بہت دبلی ہو گئی
جیسے کہ اُس کو روگ ہوں کئی سال کے
جیسے کہ سامری نے کیا گوشت خرد برد
گویا کہ ہم نے پیسے دئیے تھے بس کھال کے
ڈنگر ڈاکٹر سے جو پوچھی اِس کی وجہ
بولا وہ اپنی جیب میں کچھ فیس ڈال کے
“گائے تمہاری ہو گئی ہے اِس لئے شرنک
آڑھتی نے پلایا تھا بیسن اُبال کے
اب یوں کرو کہ بیچ دو، اس گائے کو ابھی
آثار ورنہ واضح ہیں قُربِ وصال کے
دھوکہ دہی ہے آج کل منڈی میں اس قدر
کرنا یہاں بھروسہ بہت دیکھ بھال کے“
دل نے کہا کہ دھوکہ نہ دیں گے کسی کو ہم
یہ کار نہیں مومنِ خوشخصال کے
وہ گائے بقرعید سے پہلے ہی چل بسی
ہم گھومتے ہیں رسی کو گلے میں ڈال کے
سرور فرحان سرورؔ
Copy
عہدِ نو کے فیشنوں نے سب کے یوں بدلے ہیں ڈھنگ
عہدِ نو کے فیشنوں نے سب کے یوں بدلے ہیں ڈھنگ
دیکھ کر اُن کی ادائیں، عقل رہ جاتی ہے دنگ
نِت نئے انداز میں یوں محو ہیں پیر و جواں
جس طرح کہ ڈولتی ہے، ڈور سے کٹی پتنگ
گھیر میں شلوار کے کوئی تو لائے پورا تھان
آدھ گز کپڑے میں کوئی سُوٹ کو کر ڈالے تنگ
کسی کے اِک سُوٹ سے، اِک خانداں ڈھانپے سِتر
جسم کے اعضاء کسی کے باہمی مصروفِ جنگ
ہائے عُنقاء ہوگئیں حسینوں کی رِدائیں اب
جن کی اِک ہلکی جھلک سے دل میں بجتے جلترنگ
وہ حیاء جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نُور
لے اُڑی اُس نِکہتِ گُل کو یہ تہذیبِ فرنگ
وہ تنّوع جو کہ جّدت کو بناتا تھا حسیں
اندھا دُھند تقلیدِ مغرب سے لگا بیٹھا ہے زنگ
کوئی پھٹی جینز کو سمجھا ہے ہستی کا عروج
خواہشِ عُریاں نے ہے فیشن کا پایا عُذرِ لنگ
محو ہوتا جارہا ہے دستِ حنائی کا ذوق
مغربی یلغار سے پھیکا پڑا، مشرق کا رنگ
میں مُخالف تو نہیں جدّت پسندی کا مگر
کھا نہ جائے مشرقی اقدار کو پَچھَمی پُلنگ
مختصر اتنا کہ سرور، احتمال یہ بھی رہے
تُند صحرا کے لئے ہوتا نہیں ہرگز کَلَنگ
(کَلنگ = ہنس)
سرور فرحان سرورؔ
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets