اللہ اللہ! کیا بیاں ہوں رتبۂ سرکارِ نور
ہر طرف پھیلا ہوا ہے لمعۂ سرکارِ نور
دوجہاں کی سُرخ روئی بن گئی اُس کا نصیب
ہوگیا جو دل سے لوگو! کُشتۂ سرکارِ نور
کامرانی سر فرازی اس کے زیرِ پا ہوئی
جس نے بھی اپنا لیا ہے رستۂ سرکارِ نور
ایک پل میں صفحۂ دل کی سیاہی صاف ہو
نور کا مخزن ہے ایسا روضۂ سرکارِ نور
روشنی ہی روشنی ہے دل کشی ہی دل کشی
میری نظروں میں بسا ہے قبۂ سرکارِ نور
رحمتِ عالم کی رحمت اس پہ ہوگی ہر نَفَس
جس کا پختہ تر رہے گا رشتۂ سرکارِ نور
بار بار آئے مُشاہدؔ حاضری کے واسطے
کاش! مِل جائے مجھے یہ مژدۂ سرکارِ نور
٭