آج پھر نیلا سا امبر ہے
طوفاں سا من کے اندر ہے
پھر خوشبو سی اک آتی ہے
یادوں کی دھنک بھی چھاتی ہے
بادل جو پھر سے برستا ہے
من تیرے ملن کو ترستا ہے
پھر ٹھنڈی ہوا جو لہرائی
تیری یاد نے پھر لی انگڑائی
کچھ موسم نے تڑپایا تھا
کچھ تو نے بھی ٹھکرایا تھا
نمی تھی ساحل کی ریت میں
نمی تھی دل کے بھید میں
پھر تھام لیا میں نے دل کو
اور راز دے آیا ساحل کو
کہ تو جب بھی جائے سنا دے تجھے
سنگ موجوں کے پھر بہا دے تجھے
اے سمندر ۔۔۔
مگر راز میرے بہا نہ دینا
کہیں تم بھی دوستی کی سزا نہ دینا