سفید موتوں کی اک مالا بنا کر اے بھیجی
اپنی تقدیر بھی ہمراہ پرو کر اسے ہم نے بھیجی
اسے کیا خبر اے میرے مالک
یا کیا ریت اپنی دوستی کیا اسے ہم نے بھیجی
وہ جس عروج کی آخری سیڑھی پر کھڑا تھا
اس امید کی پہلی کرن بھی اسے ہم نے بھیجی
میں اپنے زوال کے ماہ و سال میں الجھہ گئ
تحفے میں اپنے عروج کی ہر امنگ اسے ہم نے بھیجی
کل کیا ہو گا کس نے دیکھا ہے
اب کے اپنے خوابوں کی تعبیر اسے ہم نے بھیجی
جس کو وہ اپنے منہ پر طماچہ سمجھ بیٹھا تھا
وہ تو ہماری یادیں تھی جو اسےہم نے بھیجی