سنو میرے غم کی کہانی سنو
جو بیتی وہ میری زبانی سنو
آدھی رات سر میں اٹھی کھلبلی
جو دیکھا تو فوج جوؤں کی چلی
جوئیں خون کی میری پیاسی پھریں
اورحیران و ہلکان مجھ کو کریں
لہو میرا پی پی کے موٹی ہوئیں
یونہی خواہ مخواہ میرے سر ہو گئیں
سمجھ میں نہ آتا تھا میں کیا کروں
اکیلا تھا میں اور وہ تھیں سینکڑوں
دونوں ہاتھوں سے سر کھجاتا رہا
اور ساتھ میں عقل بھی لڑاتا رہا
دنگل ہوا جوؤں سے ساری رات
جوؤں کا چلا منہ چلا میرا ہاتھ
پھر ناخن پہ رکھ رکھ کے مارا انہیں
یوں جیتا تھا میں اور ہاریں جوئیں
(بابائے مزاح جعفر زٹلی سے متاثر ہو کر)