سوال اَٹی ہوٸی مٹی پر ، اُٹھایا جاۓ
أگیا وقت کہ گرد کو ، اُڑایا جاۓ
بادِ باطل نے کیوں اس سے نا أشنا رکھا
کیا ہے اس کتاب میں پڑھ کے ، سنایا جاۓ
باعثِ ثواب رہی ، مقصد جانا ہی نہیں
پیامِ سحر ہے کیا مجھ کو ، بتایا جاۓ
صاحبِ علم ہوکر بھی جہالت نہ گٸ
چلو پھر سبق اَگلوں کا ، دوہرایا جاۓ
بِن خُوشبو کے گُل بھی کوٸی گُل ہے بھلا
کیوں قابلیت چھوڑ کر ڈگریوں کو ، بڑھایا جاۓ
کردو دَستور بحال بس وہی مدنی ریاست ہے
باغ کوٸی نیا نہ اب ہم کو ، دِکھایا جاۓ
پُرفتن دور ہے ، کذابوں کی منڈی ہے
ختمِ نبوتﷺ کو ہر روز پڑھایا جاۓ
اے محافظ مُخلص ہے تو کردار ادا کر اپنا
اس سے پہلے کہ سوال تجھ پر بھی ، اُٹھایا جاۓ
سانس اُکھڑتی ہے ، نظر دید کو ترستی ہے
تم چاہتے ہو سچ اب بھی ، چھپایا جاۓ
سازِ اغیار کے غوغہ سے نکلنے کے لۓ
اب فقط دین کا نغمہ ہی ، سنایا جاۓ
کُتبِ فنون کو ہاتھ میں تھام کر ”اخلاق“
رب کے قرأن کو سینوں سے ، لگایا جاۓ