دکھا کہ پھول مجھے وہ خار دیتا ہے
اب تو قسطوں میں دیدار دیتا ہے
مجھ سے ملنے کا وعدہ نہیں کرتا کبھی
ہاں فون پہ گپ شپ مار دیتا ہے
پہلے آسماں پہ چڑھاتا ہے چکنی باتوں سے
پھر جلی کٹی سنا کہ نیچے اتار دیتا ہے
زندگی بھر دولت کے سوا کچھ نہ دیا مجھے
اب نئے دوستوں کو سود پہ ادھار دیتا ہے
اصغر کی گلی سے وہ گزرتا ہے جب
اپنی پیاری اداؤں سے مجھے مار دیتا ہے