سوچا تھا جائیں گے ہم سسرال میں
تو بولے گا ہر کوئی سُرتال میں
دنگ رہ جائیں گے یہ دیکھ دیکھ کے
گرم جوشی ہوگی ہمارے استقبال میں
ساس کا چہرہ ایسے دمک اٹھے گا
چاند ہو جیسے جھیل کے پاتال میں
پیار میں ڈوبی سُسر کی گفتگو ہوگی
کتنی شیرینی ہوگی اُن کے اقوال میں
کھلکھلا اُٹھیں گی ساری سالیاں اپنی
کتنی پھُرتیاں ہونگی اُن کی چال میں
سب وارے نیارے ہو رہے ہونگے
چائے آجائے گی، سج کے تھال میں
ہوا یہ کہ جب گئے ہم سُسرال میں
ملی سرد مہری، ہم کو استقبال میں
ساس کو ہوئی جب میری آمد کی خبر
سر چھپا کے سوگئی وُہ شال میں
اور سُسر لگا مجھے یوں بیٹھا ہوا
شیر بیٹھا ہو جیسے آدمی کی کھال میں