سو بار یہ دل ٹوٹا، سو بار ہوئے سودائی
جب بھی کسی لڑکی نے ہم کو ہے کہا بھائی
کالج کے چکر نے چکر میں ہمیں ڈالا
کینٹین میں ہے رونق اور کلاس میں تنہائی
ماں باپ کا کہنا تھا، دل لگا کے پڑھا کرنا
یاں چہرے کتابی ہیں، ہم کرتے ہیں پڑھائی
ہے دردِ محبت کا انجام غمِ ہستی
محبوبہ کے بھائی سے جب ہوتی ہے پٹائی
ذہانت سے جلتے ہیں سارے ہی میرے ٹیچرز
ہر ایک نے فیل کر کے بس مار ہی کھِلوائی
فضول قواعد ہیں، سر پیر نہیں کوئی
دو چار جُہلاء نے اندھیر ہے مچائی
تانیث ہے ہمسائی، ہمسائے کی گر یارو
چوپائے کی مؤنث، کیونکر نہیں چارپائی؟
ایگزام سے کیا حاصل؟ بیکار کی ٹینشن ہے
پاس ہونے پہ خرچہ ہے، فیل ہونے پہ رُسوائی
سوچا ہے یہی سرور، بدلیں گے زمانے کو
فی الحال کتابوں سے شامت ہے میری آئی