سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے