سکوتِ ذات میں صدا دی اداسی نے
میری تو ہر بات مٹا دی اداسی نے
مل کے مجھ سے خود بھی ہو گئ اداس
آج دیکھ کر مجھ کو دعا دی اداسی نے
غم ء یاراں میں کیا تجھے یاد کروں
مجھے تو ہر بات بھلا دی اداسی نے
طلوع ء شام بھی کچھ کم نہ تھی مگر
اداسی کچھ اور بڑھا دی اداسی نے
اس سے بھلا اتنی ملاقات کہاں تھی
شناسائی یوں ہی بنا دی اداسی نے
اہل ء دل تم سے کیا پوچھوں وفا کے تقاضے
تم سے خوب نبھا دی اداسی نے
چراغ ء دل کو کیا اب سنبھال کے رکھوں
لو تو ہر اک بجھا دی اداسی نے
ہم تو ضبط کئے بیٹھے تھے عنبر
حالت مگر سب بتا دی اداسی نے