سکوت شام کا حصہ تو مت بنا مجھ کو
میں رنگ ہوں سو کسی موج میں ملا مجھ کو
میں ان دنوں تری آنکھوں کے اختیار میں ہوں
جمال سبز کسی تجربے میں لا مجھ کو
میں بوڑھے جسم کی ذلت اٹھا نہیں سکتا
کسی قدیم تجلی سے کر نیا مجھ کو
میں اپنے ہونے کی تکمیل چاہتا ہوں سکھی
سو اب بدن کی حراست سے کر رہا مجھ کو
مجھے چراغ کی حیرت بھی ہو چکی معلوم
اب اس سے آگے کوئی راستہ بتا مجھ کو
اس اسم خاص کی ترکیب سے بنا ہوں میں
محبتوں کے تلفظ سے کر نیا مجھ کو
درون سینہ جسے دل سمجھ رہا تھا علیؔ
وہ نیلی آگ ہے یہ اب پتا چلا مجھ کو