تلاش نے سکوں کو چلا تھا ایک روز کو
نفس کے پیچھے چلا تھا ایک روز وہ
اسے خبر نہیں تھی کہ سکوں ملے گا کہاں
دوسروں کے اشاروں پر نکل پڑا اک روز وہ
دولت کی ریل پیل تھی، نوکروں کی بھیڑ تھی
پھر بھی سکوں ملا نہیں، دل تھا کیوں نہ مطمئن
مسکراہٹ میں کھوٹ تھی، اداس کیوں تھی زندگی
تلاش نے جواب کو نکل پڑا اک روز وہ
پہاڑوں کی سیر کی، سمندروں کو بھی چھان لیا
آسمانوں پہ پرواز کی، جنگلوں میں بھی کھو گیا
نہ ملا کچھ تو چاند پر بھی پہنچ گیا
ساری دنیا کھنگالنے پر بھی خالی ہاتھ رہا وہ
آئینے کے سامنے پھر کھڑا ہوا اک روز
اور کہا آئینے سے کہ، تھک گیا ہوں میں اب
محبت کی تلاش میں پھر رہا تھا در بدر
بے سکونی میں کیوں کٹ رہی ہے یہ عمر
عکس نے مسکرا کے کہا، کیوں پھرتا ہے یہاں وہاں
جس کی تجھے تلاش ہے، وہ تو تیرے ہی پاس ہے
خودی میں اپنے ڈوب جا، خودی میں ہی تو ہے خدا
سکوں کو خود میں تلاش کر پھر مل جائے گا خدا