اب تو بدنام سیاست نہیں دیکھی جاتی
ہم سے ایسی یہ قیادت نہیں دیکھی جاتی
ملک و ملت کو نئی نسل سنوارے لیکن
خاندانی یہ وراثت نہیں دیکھی جاتی
زندگی تجھ کو بھی دستور بدلنا ہو گا
بھائی بھائی کی حکومت نہیں دیکھی جاتی
ہر کوئی اپنے ہی گھر سے جو ہوا ہے بے گھر
تختِ لاہور کی ذِلّت نہیں دیکھی جاتی
کوئی افلاس کی خاطر بھی تو دھرنا دے دے
بھوکے بچوں کی یہ صورت نہیں دیکھی جاتی
آؤ مل جل کے محبت کو یہاں عام کریں
دل کی بستی میں کدورت نہیں دیکھی جاتی
وشمہ تعلیم کی خاطر بھی کوئی شعر کہو
ورنہ اس قدر جہالت نہیں دیکھی جاتی