چل کر اے زباں سیّدِ ابرار کا چرچا
محبوبِ خدا مونس و غم خوار کا چرچا
آدم کو ملی زیست ، ہے انوارِ نبی سے
ہر شَے نے کیا آپ کے انوار کا چرچا
انساں ہی نہیں حور و ملک بھی ہیں ثنا خواں
کس جا نہ ہوا احمدِ مختار کا چرچا
اَخلاق ہی سرکارِ دوعالم کے تھے ایسے
دشمن ہوئے تائب ، کیا کردار کا چرچا
اک جست میں طے ہوگی ہر رفعتِ کونین
داناوں میں ہے آپ کی رفتار کا چرچا
وہ رنگِ بیاں آپ کا اعجازِ کلامی
فُصحاے عرب کرتے ہیں گفتار کا چرچا
کیا مدح کروں سیّدِ کونین کی لوگو!
قرآن بھی جب کرتا ہے سرکار کا چرچا
اعداے نبی مٹتے گئے خود ہی جہاں سے
ہوتا ہی رہے گا سدا سرکار کا چرچا
نظمیؔ کی عنایت سے ہے یہ نعت مُشاہدؔ
اشعار کی صورت میں ہے سرکار کا چرچا