سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں
آئنے چاروں طرف ہیں دیکھتا کوئی نہیں
سب کے سب ہیں اپنے اپنے دائرے کی قید میں
دائروں کی حد سے باہر سوچتا کوئی نہیں
صرف ماتم اور زاری سے ہی جس کا حل ملے
اس طرح کا تو کہیں بھی مسئلہ کوئی نہیں
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد
چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں
جو ہوا یہ درج تھا پہلے ہی اپنے بخت میں
اس کا مطلب تو ہوا کہ بے وفا کوئی نہیں
تیرے رستے میں کھڑے ہیں صرف تجھ کو دیکھنے
مدعا پوچھو تو اپنا مدعا کوئی نہیں
کن فکاں کے بھید سے مولیٰ مجھے آگاہ کر
کون ہوں میں گر یہاں پر دوسرا کوئی نہیں
وقت ایسا ہم سفر ہے جس کی منزل ہے الگ
وہ سرائے ہے کہ جس میں ٹھہرتا کوئی نہیں
گاہے گاہے ہی سہی امجدؔ مگر یہ واقعہ
یوں بھی لگتا ہے کہ دنیا کا خدا کوئی نہیں