نہ نوکری ہے پاس مرے اور نہ مال ہے
شادی کروں میں کیسے بڑا پتلا حال ہے
جب بھی میں گھر میں پوچھتا ہوں کیا پکا ہے آج
ملتا ہے یہ جواب چنے کی ہی دال ہے
میمان گھر میں آتے ہیں بس خالی ہاتھ ہی
مہماں نوازیوں سے تو اماں نڈھال ہے
لائے ہو کیا کما کے بتاؤ تو آج تم
ابا کا روز مجھ سے یہی اک سوال ہے
فرمائشیں ہیں دوستوں کی شعر سناؤ
فرمائشیں میں ٹالوں مری کیا مجال ہے
ہاں کہہ رہا تھا میں کہ مری جیب ہے خالی
اس حال کو بھی پہنچے مجھے دسواں سال ہے
کالج میں مشکلوں سے بنی تھی جو اک فرینڈ
یہ کہہ کے اس نے چھوڑ دیا تو کنگال ہے
سگریٹ بھی پینے کے لیے پیسے نہیں ہیں آج
اب مجھ کو وقت کاٹنا کتنا محال ہے
پینکچر لگا کے پیٹ کی پوجا کریں گے اب
ایم اے کرو جو پاس تو ہوتا یہ حال ہے