ہے حوصلہ ہمارا شبیر کے سہارے
مل جائے گا کنارا شبیر کے سہارے
سامنے عدو تھے اور جبر کوبہ کو تھے
میں ہو گیا صف آرا شبیر کے سہارے
بے رحمی اور شقاوت اہل جہاں نے کی ہے
کیے سارے غم گوارا شبیر کے سہارے
جمگھٹ تھا اشقیا کا ملی کوفے کی اسیری
عرصہ وہاں گزارا شبیر کے سہارے
تیری عنایتوں سے ارض وطن ہو یا رب
راحت کا اک گہوارہ شبیر کے سہارے
درماندہ رہرو اور کالی کٹھن مسافت
ہے چل پڑا بے چارہ شبیر کے سہارے
سیل زماں نے جب بھی گرداب میں گرایا
قسمت کو ہے سنوارا شبیر کے سہارے
یاس و ہراس سب کچھ اہل جفا نے دے دی
رحمت کا تھا اشارہ شبیر کے سہارے